محبت کے دعوے بہت ہو چکے ہیں
اور جذبوں کے لاوے بہت ہو چکے ہیں
کہیں دوریوں کا یہ آغاز نہ ہو
ادب کے تقاضے بہت ہو چکے ہیں
کفن کی، دفن کی ضرورت نہیں ہے
کہ زندہ جنازے بہت ہو چکے ہیں
مجھے کوئی تھپکی ، دلاسہ دلا دو
کہ آنسو پیازے بہت ہو چکے ہیں
دِلوں کہ زخم بھی ہیں محوِ سر و تال
موسیقی، سازے بہت ہو چکے ہیں
اے دِل حوصلہ ، رات تاریک ہے
اور راز و نیازے بہت ہو چکے ہیں

Latest posts by Muhammad Ateeb Aslam (see all)
- ڈریکولا- Dracula - 03/05/2021
- احمقمرشد - 30/04/2021
- غزل: خاک نشینوں میں ٹھہر - 27/04/2021